تحمّل عشق بقلم ملیحہ چودھری
قسط 1
------------
ڈوبتا ہوا سورج اُسکی نارنجی کرنیں جیسے آسمان میں پھیلی ہوئی تھی، ایسے ہی اُسکے دل اور دماغ پر ڈوبتے سورج کی نارنجی کرنوں کی طرح کئی سوالات گردش کر رہے تھے، جس کے وہ ہر روز جواب تلاشتی تھی۔۔
آسمان میں چہکتے چرند پرند اپنے اپنے گھوسلوں کی طرف واپس لوٹ رہے تھے ، عصر اور مغرب کا درمیانی وقت تھا سورج غروب ہو رہا تھا ، ہر جانب لال پیلی ہری کئی سارے رنگوں میں ایسا لگ رہا تھا جیسے دنیا کے سارے رنگ ایک ہی کر دیے گئے ہو ، ایسا ہی تو تھا وہ آسمانوں زمینوں کا بادشاہ وہ تو کچھ بھی تو کر سکتا تھا ، اسکو دنیا کے عارضی رنگوں کی کیا ضرورت تھی ، ہلکی ہلکی ہوائیں چل رہی تھی جو آج کے موسم کو نکھار رہی تھی۔۔۔
"کیا کبھی میری زندگی سے یہ عذاب ختم ہوگا؟ میری زندگی میں ایک خلش سی کیوں ہے؟
"یہ زندگی کیوں بنائی گئی ، اسکا مقصد کیا ہے ؟ کیا زندگی کا نام صرف دکھ ہی ہیں؟ کیا زندگی میں کبھی خوشیاں بھی ملے گی ؟ سوالوں کے بوچھار زندگی کے ستم ،وہ معصوم چھوٹی عمر لڑکی جس نے زندگی کے محض چند سال ہی جیے تھے اتنے سوالات اور وہ بھی جس کے جواب ہر کسی کے پاس نہیں ہوتا انکو سوچنے پر مجبور تھی۔۔
آخر وہ کیوں تھی مجبور ؟؟ کیا اُسکی زندگی نے اسکو ایسے دوراہے پر لا پٹکا تھا کہ وہ ان سوالات کے جواب ڈھونڈنے پر مجبور تھی ۔
وہ ٹیرس پر کھڑی نیچے کی طرف دیکھ رہی تھی سبز ہری بھری لان ایک جانب لاتعداد قطار میں لگے پھول جو سونے کی تیاری پکڑ رہے تھے وہ اُن پھولوں کو اپنے ٹیرس پر کھڑی بہت غور سے دیکھ رہی تھی جیسے اپنے سوالوں کے جواب تلاش رہی ہو۔۔
جب انسان کے پاس ایسا کوئی جن سے وہ اپنے دل کی بات ،اپنے سوالوں کے جواب اپنی زندگی کا ہر وہ اُتار چڑھاؤ شیئر کرنے کے لیے رشتہ نہیں ہوتا تو وہ پھر قدرتی چیزوں میں وہ تلاشنے لگتا ہے جو وہ انسان سے چاہتا ہے۔ اور یقین مانو یہ سب سے زیادہ مخلص دوست ثابت ہوتے ہیں، ہم اپنا حال بیان کر لیتے ہیں اُن سے اور وہ خاموشی کے ساتھ ایسے ہماری باتیں سنتے ہے جیسے اس بات سے زیادہ تو کوئی اہم بات ہو ہی نہیں سکتی ، نہ وہ انسانوں کی طرح غم کا نقاب چہرے پر سجائے بات کو سنتے ہے اور سن کر ہنس کر اڑاتے ہیں ، اللّٰہ کی بنائی ہر وہ بے زبان چیز اُسکے بندے کی بہت ہی مخلص دوست ثابت ہوتی ہے۔۔
"آپی آپی جیرش آپی... !!!
آفیرا سعد احمد درمیان قد ، گورارنگ ، پتلی ستواں ناک بڑی بڑی کالی آنکھیں ، کندھوں تک آتے سنہری بال پتلی سی تھوڑی تلخ بات کرنے والی لڑکی تھی وہ بات بولنے سے پہلے کبھی نہیں سوچتی تھی کہ سامنے والے کو بُرا بھی لگے گا یا نہیں بس جو بولنا ہے بسس بولنا ہے پھر چاہے سامنے والا اُسکی باتوں کے تیر سے مر ہی کیوں نہ جائے اسکو کوئی فرق نہیں پڑتا تھا۔۔
وہ جيرش کو آوازیں دیتی بلکہ اسکو ڈھونڈتی ٹیرس پر ہی آ گئی تھی۔۔
"جیرش آپی آپ یہاں ہیں؟ اور میں آپکو کب سے پاگلوں کی طرح ڈھونڈ رہی ہوں وہ ماتھے پر بل لائے بولی ، لیکن آپ.....؟ اُسکے تو منہ میں ہی الفاظ رہ گئے تھے جب اُس نے جیرش کو دیکھا تھا۔۔
لمبا قد ، موٹی موٹی گلابی شرابی آنکھیں جو بھی دیکھتا دوبارہ دیکھنے کی خواہش ضرور کرتا ان آنکھوں میں ہمہ وقت ویرانی سی رہتی تھی ، گول چہرا ،گلابی پنکھڑی دار ہونٹ جو لپسٹک سے بلکل پاک تھے ، گلابی سفید رنگ جو سورج کی ٹمٹماتی روشنی کی طرح چمک رہا تھا ، سراہی دار گردن جس میں وہ ایک چھوٹا سہ لاکٹ پہنے رکھتی تھی ، کالے گھنے لمبے بال جس کو اُس نے جوڑے میں مقید کیے ہوئے تھے وہ کالے لونگ فراک زیب تن کیے گلے میں دوپٹہ ڈالے وہ نظر لگ جانے کی حد تک پیاری کم گو شہزادی لگ رہی تھی۔
"واؤ اٹس آ بیوٹیفل !! ایک دم افیرا چلّائی ، اُسکے یوں چلانے پر جیرش نے اُسکی طرف حیرت سے دیکھا "کیا ہوا ؟ ایسے ری ایکٹ کیوں کر رہی ہو ؟ جیرش نے اُسکی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا تھا۔
"آپ بہت پیاری لگ رہی ہے ، سچ میں اتنی خوبصورت لگ رہی ہے کہ کیا بتاؤں ؟ آفیرا جیرش سے بول کر خاموش ہوئی تھی ، اور کچھ وقفہ بعد بولی ، ویسے آپی پڑوس کا وہ لڑکا ہے نہ رحیم آپ پر یوں ہی فدا نہیں ہے آپکی خوبصورتی تو ایسی ہے کہ کسی اچھے خاصے انسان کو جلا کر خاستر کر سکتی ہے اپنے حسن سے ، پھر وہ بیچارہ کیا اُسکے سامنے ، اُسکا انداز ایسا تھا کہ جیرش کا دل کیا خود کو کہیں فنہ کر لیں ، خودکشی کر لیں ، یا پھر اپنے آپکو زمین میں زندہ دفنا دیں۔۔
"آفیرا سٹاپ اٹ .... !!
"تمہیں اندازہ بھی ہے کیا بول رہی ہو تم ؟ کچھ بولتے ہوئے اپنے الفاظوں پر بھی غور کر لیا کرو جیرش نے اسکو ڈانٹا تھا ، جبکہ آفیرا ڈھیٹ بنتی مسکرائی تھی۔
"آپی میں نے کیا غلط بولا ہے ؟ صحیح تو بول رہی ہوں میں آپکا حسن ہے ہی اتنا پٹاخے دار جس کو بھی چاہے زوردار دھماکے سے اُسکے دل اور دماغ پر اپنا قبضہ کر لیں ، وہ ڈھیٹ بنی بول رہی تھی یہ جانے بغیر کہ اُسکے الفاظوں سے سامنے والے پر ، کیا بیت رہی ہوگی ؟
"صحیح. کہا ہے کسی نے کہ مارتے ہوئے کے ہاتھ پکڑے جا سکتے ہیں لیکن بولتے ہوئے کی زبان نہیں آفیرا کو جو بولنا تھا وہ بول چکی تھی ، اُسکا مقصد ہی جیرش روہیل خان کو ہرٹ کرنا تھا سو وہ کر چکی تھی۔۔
آفیرا سعد احمد جیرش روہیل خان سے بہت ہی نفرت کرتی تھی دل میں کچھ اور اور چہرے پر کچھ ، وہ جتنی سیدھی معصوم وہ دکھتی تھی اُس سے کہیں زیادہ وہ تیز ترّار تھی ، کہنے کو وہ جیرش روہیل خان کی چھوٹی بہن تھی لیکن اصل میں افیرا اسکو بہن نہیں مانتی تھی بلکہ سوتیلی بہن مانتی تھی ، وہیں رویہ جو ایک سوتیلے کے ساتھ کیا جاتا ہے وہ کرتی تھی اُسکے ساتھ۔
"آخر وجہ کیا تھی آفیرا کی ،جو وہ جیرش روہیل خان سے اتنی نفرت کرتی تھی؟؟
"کیا کبھی اُسکی یہ نفرت ختم ہو پائے گی ؟
کیا جیرش کو آفیرا سعد احمد اپنا مان لیگی ؟
یہ تو صرف وقت ہی بتا سکتا ہے۔۔
" خیر آپکو بابا بلا رہے ہیں سٹڈی روم میں ، جلدی جائے ویسے ہی کافی وقت جایا ہو گیا ہے وہ جیرش کو سر تا پا دیکھتے ہوئے بولی جیرش اسکو بہت اچھے سے سمجھ رہی تھی اُسکا انداز بولنے کا آنکھوں کا ایکسپریشن سب ہی پہچانتی تھی لیکن کہہ کچھ نہیں پائی کیونکہ بقول جیرش کے کہ ان بولنے والوں کے ساتھ ایک بہت بڑا مضبوط بیک گراؤنڈ ہے جبکہ میرے پاس رشتے کے نام پر صرف ماں ہی ہے۔
بابا کے نام پر جیرش کے چہرے پر خوف آ کر گزرا تھا ماتھے پر ہلکے ہلکے پسینے کی بوندیں دیکھنے لگی ، اُسکا دل کیا کہ وہ بہت دور چلی جائے جہاں یہ آفت نہ ہو وہ خود کو سنبھالتی بہت دیر تک خاموش رہی تھی ، اور پھر بولی
"ک کیا ب بابا ؟ وہ مجھے کیوں بلا رہے ہے ؟ آواز ٹوٹ ٹوٹ کر ادا ہو رہی تھی۔۔
"مجھے کیا پتہ کیوں بلا رہے آپکو ؟ کُچّھ کام ہی ہوگا ، آفیرا کندھے اُچکاتی بولی ، ویسے ڈر کیوں رہی ہے آپ ؟ آفیرا نے پوچھا جیرش کُچّھ نہیں بولی تو وہ پھر سے گويا ہوئی تھی ۔۔
" بائے دا وے ، آپ یہاں کیا کر رہی ہے؟ آفیرا نے اُسکی عجیب تلاشتی نظروں سے دیکھا ، جیرش نے اسکو دیکھا اور پھر بولی
" میں تمہیں بتانا ضروری نہیں سمجھتی ، وہ بول کر اسکو وہیں چھوڑتے ہوئے بگل میں سے نکل کر باہر کو چلی گئی تھی۔۔
"ہہہہہہہہہہہ !!
"بڑی آئی میں تمہیں بتانا ضروری نہیں سمجھتی وہ اُسکے جانے کے بعد جیرش کی نقل اتارتے ہوئے خود سے مخاطب ہوئی اور ایک ادا سے بالوں کو جھتکتی وہاں سے چلی گئی تھی۔۔
______________________________________
" کیا یار ہر بار تُو ایسا کیوں کرتا ہے؟ مطلب تُجھے سپورٹس میں حصّہ لینے کے لیے پوری یونیورسٹی زور لگا رہی ہیں ، لیکن موصوف کے تو مزاج ہی ساتویں آسمان پر چڑھے ہوئے ہیں ۔۔
شایان نے کن آنکھوں سے اُسکی طرف دیکھ کر کہا جبکہ اسکو شو ایسے کروا رہا تھا جیسے وہ سمعان سے بہت ناراض ہو ۔۔
لیکن مقابل بھی سمعان احمد تھا وہ کسی کی سن لیں ، امپوسیبل ، نیور !!
" کبھی ایسا ہو ہی نہیں سکتا ؟
جس دن ہو گیا تو دنیا میں اُسنے ایک مرکبہ ہی نہ مل جائے گا اُسکے نام سے ورلڈ کا خطاب ہی تو تیار ہو جائے گا ایسا شایان کو لگتا تھا ۔۔
"ہہہہہہ !!
" ویسے ایک قسم کے ڈھیٹ بدتمیز ظاہل انسان ہو تُم وہ غصے سے اُسکی طرف کشن پھینکتے کھڑا ہوا اور گیٹ کی طرف بڑھا ، سمعان جو ڈریسنگ ٹیبل پر کچھ تلاش رہا تھا اُسکے یوں غصّہ ہو کر جانے پر پلٹا تھا۔
"ایک قدم اگر اور تونے آگے بڑھایا نہ تو مُجھسے بُرا کوئی نہیں ہوگا ،وہ گیٹ کی طرف جاتے شایان کو دھمکی دینے کے سے انداز میں بولا ، شایان کے قدم وہیں ٹھہر گئے تھے ، چہرے پر بہت پیاری مسکراہٹ در آئی وہ پلٹا نہیں تھا کیونکہ وہ آج اپنا غصّہ نہیں نہیں بلکہ مصنوعی غصّہ دکھانا چاہتا تھا۔۔
سو وہ دکھا رہا تھا " تُو اچھے سے جانتا ہے ، کہ میں کیوں نہیں لے رہا سپورٹس میں حصہ پھر کیوں اتنا زور دے رہا ہے تُو ؟؟ جس چیز پر کوئی فائدہ نہیں ہے بات کرنے کا تو لڑائی کیوں کر رہا ہے ؟ وہ بے بسی سے بول رہا تھا آنکھوں کے پپوٹے لال سرخ ہو گئے تھے وہ اتنا بے بس دکھائی دے رہا تھا کہ شایان کا دل کیا اپنے جگری دوست کو گلے سے لگا کر اُسکے ہر دکھ اپنے اندر سمیٹ لیں۔۔
وہ ایک دم سمعان کی طرف بڑھا تھا اور اسکو گلے سے لگا کر بولا
"سمعی میرے بھائی کب تک تُو ایک انسان کی وجہ سے اپنے آپ کو اذیت میں رکھے گا ؟
تُو یہ سوچ لیں نہ کہ وہ ایک اجنبی ہے ، بس اپنے خواب کو پورا کر تُو ، اُس اور دھیان دیں سب کچھ بھول جا یہ سوچ کہ تُو انکو نہیں جانتا جیسے ساری دنیا تیرے لیے اجنبی ہے انکو بھی تُو دیکھ کر اگنور کر دیں ، شایان اسکو سمجھانے کی اپنی سی کوشش کر رہا تھا ۔
" نہیں بھول سکتا یار !! اُس شخص کو میں نہیں کر سکتا اگنور کیونکہ وہ اجنبی نہیں ہے ، میں لاکھ صحیح انکو نظرانداز بھی کروں تو نہیں کر سکتا ایک رشتہ ہے اُس شخص سے میرا اور وہ ہے نفرت کا میں جب جب اس شخص کی شکل دیکھتا ہوں تو وہ اذیت ناک لمحہ میری آنکھوں کے سامنے فلم بن کر چلنے لگتا ہے ، اُسکی آنکھوں سے ایک آنسوں ٹوٹ کر شایان کی شرٹ میں جذب ہو گیا تھا ، شایان نے اُسکی پیٹھ کو ٹھپ تھپایا تھا اور پھر ہنستے ہوئے بولا "اچھا اچھا میرے بھائی بس بھی کر دیں اب رُلائے گا کیا ؟ وہ آنکھوں سے مصنوعی آنسوؤں کو پونچھتے سمعان کو مسکرانے پر مجبور کر گیا تھا۔۔
"نہیں رُلاتا ، لیکن ایک شرط پر ؟؟ سمعان نے اُسکی طرف دیکھا ، شایان نے جھٹ سے سمعان کو دیکھا اور پھر زور سے چلّایا تھا۔۔۔
"نہیں ں ں ں ..... !!!!
اُس نے اُسکا اشارہ سمجھتے ہوئے وہاں سے دوڑ لگا دی تھی ، سمعان نے اسکو یوں بھاگتے ہوئے دیکھا تو اُسکا كہکا ہے اختیار بلند تھا۔۔
ہاہاہا ہاہاہا ۔۔۔
" بیٹا ہنس لیں ہنس لیں لیکن جیب خالی میں بلکل بھی نہیں کروں گا انشاللہ !!
شایان نے سمعان کی طرف دل جلا دینے والی مسکراہٹ پاس کرتے باہر کو دوڑ لگا دی تھی ، جا بیٹا تُو تو کیا تیری پڑچھائی بھی جیب خالی کرے گی سمعان نے بھی پیچھے سے ہانک لگائی تھی ، شایان جو گیٹ کے اُس پار کھڑا سن رہا تھا اُسنے اپنا تھوڑا سہ چہرا دروازے سے اندر کیا اور پھر بولا چل بے جیب خالی کرتی ہے میری جوتی اور جلدی سے اپنی شکل گم کی تھی ، کہیں سمعان کی جوتی ہی نہ اُسکی شکل خالی نہیں نہیں شکل کو بے نور کر دیتی ۔۔۔
وہ ایسے ہی تھے ایک دوسرے کے ہمسائے ، ایک دوسرے پر جان وا کر دینے والے بہت خوبصورت تھی اُنکی دوستی وہ ایک دوسرے کو دوست کم بھائی زیادہ مانتے تھے ، دونوں بچپن کے دوست تھے ، اسکول ، کالیج اور اب یونیورسٹی ساتھ ساتھ پڑھائی کر رہے تھے دونوں کا ،ایم بی اے کا لاسٹ یئر تھا پڑھائی میں بہت ہی ہونہار تھیں ، ہاں کبھی کبھی شایان کوتاہی کر دیتا تھا لیکن سمعان احمد وہ کبھی بھی اپنی سٹڈی کو لے کر کسی بھی چیز میں کمپرومائز نہیں کرتا تھا جو ٹھان لی بس پھر وہ کرنا ہی ہے چاہے پھر اُس میں اپنی جان بھی ختم ہو جائے
سمعان احمد :
سنجیدہ مزاج کم بولنے والا غصے کا تیز ، احمد فیملی کا سب سے بڑا بیٹا لمبا قد ، کسرتی بدن ، سفید گلابی رنگ بلیو آنکھیں جن پر بڑی بڑی پلکوں کی باڑ تھی ، خوبصورت ناک سنہری بال وہ ہر لحاظ سے پرفیکٹ خوبصورت تھا ایک زمانہ اُسکی خوبصورتی کا قائل تھا لڑکی تو لڑکی لڑکے بھی اُسکی پرسنلٹی کو دیکھ کر رشک کرتے تھے اُس پر
وہ اپنی یونیورسٹی میں ہنڈسم بوئے کے نام سے فیمس تھا ہوتا بھی کیوں نہ ؟ آخر اللہ نے اسکو حسن ہی اتنا دیا تھا ، لیکن کبھی اسکو اپنے حسن پر غرور نہیں ہوا تھا۔۔
شایان خان :
شایان خان ، خان فیملی کا سب سے چھوٹا شرارتی لڑکا تھا سمعان جیتنا سنجیدہ تھا تو وہ اتنا ہی شوخ مزاج کا تھا ، لمبا قد گورا صاف رنگ کسرتی بدن موٹی موٹی کالی سیاہ آنکھیں کالے بال بھری بھری بیرڈ وہ خوبصورت تھا لیکن سمعان سے تھوڑا کم وہ جب بھی بات کرتا تو سب کا دل موہ لیتا تھا
بھئی آخر کو وہ ہمارا شایان خان تھا تو ہوتا بھی کیوں نہ ، سمعان کی شایان میں اور شایان کی سمعان میں جان بستی تھی بہر حال جو بھی تھا وہ دونوں ایک دوسرے کے بہت ہی اچھے دوست تھے اور انکو اپنی اس دوستی پر فخر تھا۔
______________________________________
وہ دروازے کو اندر کے جانب دھکیلتی اندر آ گئی تھی ، سعد صاحب کسی فائل کا مطالعہ کر رہے تھے وہ دھیرے دھیرے قدم بڑھاتی اُنکے پاس جا کر رکی تھی ، گردن نیچے جھکائے آہستہ سے اُسنے سلام کی
" السلام وعلیکم !!
" وعلیکم السلام ، بہت دیر کر دی آنے میں ؟ سعد صاحب نے اپنا چشمہ درست کرتے ہوئے فائل کو ایک طرف رکھ کر اسکو سر تا پا دیکھا تھا ۔
" و وہ مجھے ابھی بتایا ہے آفيرا نے ،وہ اُنکی نظروں سے گھبراتی خود میں سمٹی تھی۔۔
"ہممم ٹھیک ہے !!
بیٹھو سعد صاحب نے اسکو بیٹھنے کا بولا وہ خاموشی سے اُنکے سامنے والی چیئر پر بیٹھ گئی ، اپنے ہاتھوں کی انگلیوں کو چٹخانے لگی تھی۔۔
"کیا سوچا پھر ؟ تھوڑی خاموشی کے بعد وہ بولے تھے ، جیرش کی تو سانسیں ہی رُک گئی تھی آنکھوں میں بے تحاشہ آنسوں آ گئے تھے جن کو اُس نے اپنے اندر دھکیلے وہ بس خاموشی سے سعد صاحب کا چہرا دیکھنے لگی تھی ۔۔
" کچھ پوچھا ہے میں نے ؟ سعد صاحب نے اسکو نہ بولتے دیکھا تو اپنی بات پر زور دیتے بولے ، ا آپ ک کیوں کر رہے ہیں ایسا ؟ ا آفیرا بھی تو ہے وہ ہمت کر کے آج بول ہی تو گئی تھی ، م م میں آپکی بیٹی جیسی ہی تو ہوں ایک آنسوں ٹوٹ کر اُسکی ہاتھ کی ہتھیلی پر گرا تھا۔
"بیٹی جتنی ہو ، لیکن بیٹی ہو تو نہیں ، اور پھر کیا حرج ہے ؟؟ ایک دن کی ہی تو بات ہے جیرش نے قرب سے آنکھیں موند لیں تھی۔
وہ جھٹکے سے کھڑی ہوئی اور پھر بولی " انکل بے شک آپ مجھے گھر سے نکال دیں، لیکن جو آپ سوچ رہے ہیں میں اسکو کبھی نہیں کر سکتی یہ نہ جائز رشتے ، چھی ی ی !! آپکو شرم آنی چاہئے م میں آپکی بیٹی سے کچھ ہی تو بڑی ہوں وہ ایک ہی جسٹ میں ساری بات بول گئی تھی روز روز سے اچھا تھا کہ آج ہی وہ اس ٹارچر کو ختم کر دینا چاہتی تھی وہ بول تو گئی تھی ، لیکن اب اسکو ڈر تھا کہ کہیں غصّے میں اسکی باپ کی عمر کا یہ شخص کچھ کر ہی نہ دیں ۔۔
سعد صاحب ہلکا سا مسکرائے تھے اُنکی ہنسی اس وقت شیطان کی ہنسی لگ رہی تھی ، نہ جائز رشتے ؟؟ تو پھر چلو جائز بنا لیتے ہے نہ ! وہ بول کر جیرش کو دیکھ کر ہنسے تھے۔
جیرش کو تو یقین ہی نہیں ہوا سامنے بیٹھا یہ پچپن سالہ شخص جس کے دو بیٹے اور ایک بیٹی تھی و وہ ایسا بول سکتا تھا ، جیرش ایک لمحے کو ڈگمگائی تھی ، انکل آپکو آپکو مکافات عمل سے ڈر نہیں لگتا کیا پتہ جو آج آپ میرے ساتھ کرنے پر تیار ہے وہیں دکھ کبھی آپکی بیٹی پر بھی آ جائے۔۔
"بسس !! وہ میری بیٹی ہے سعد احمد خان کی بیٹی سمجھی آئندہ کبھی یہ لفظ زبان سے نہیں نکالنا اور ہاں اگر میری بات نہیں مانی تو بہت بُرا ہوگا صرف آج آج رات کا وقت ہے تمہارے پاس ، مجھے ہاں میں ہی جواب چاہئے اگر منا کیا تو میں جو کر سکتا ہوں پھر آپکی ایک بھی نہیں سنوں گا ، اب آپ جا سکتی ہو۔۔
جیرش نے آنسوؤں سے لبا لب آنکھیں اٹھا کر اس ظالم سمت انسان کو دیکھا تھا کیسے اس شخص پر اهوانیت طاری تھی ، جو اللہ کی مار سے بھی نہیں ڈر رہا تھا ۔۔
وہ بھاری قدموں سے سٹڈی روم سے باہر نکلی اور بے دردی سے آنسوؤں کو رگڑتی اپنے روم کی طرف چلی گئی تھی ۔
" کیا جیرش ، سعد احمد صاحب کے سامنے جھک جائے گی ؟
"کیا ہوگا اُسکا آخری فیصلہ ؟
"کیا وہ کوئی قدم اٹھائے گی اس گناہ سے بچنے کے لئے ؟
یہ تو انے والے کل ہی بتائے گا ۔
______________________________________
" ویسے اس دنیا کے انسان بہت ہی ظالم ہوتے ہے دوسروں کے پاکیزہ جذباتوں کے ساتھ ایسے کھیلتے ہیں جیسے یہ انسان نہیں ایک مٹّی کی گڑیاں ہو ، جیسے چھوٹا سہ بچہ جب ایک خوبوصورت گڑیاں کو دیکھ کر اسکو اپنے پاس رکھنے کی خواہش کرتا ہے نہ ایسے ہی بڑے ہونے کے بعد وہ انسان جس میں جذبات جیسے احساس سے عاری کسی خوبصورت لڑکی کو دیکھ کر ایسے خواہش کرتا ہے ، لیکن بچے کی خواہش اور احساس سے عاری شخص کی خواہش میں بہت فرق ہوتا ہے ، بچہ اُس گڑیاں کو سنوارتا ہے اُسکا خیال رکھتا ہے اور اسکو کھیل کر اُسکی سیفٹی کرنے کے لئے اسکو اچھی طرح سنبھال کر رکھ دیتا ہے ، لیکن احساس سے عاری شخص اُس خوبصورت گڑیاں کے ساتھ ایسے کھیلتا ہے کہ اسکو دوبارہ کھیلنے کے قابل نہیں چھوڑتا اسکو زندہ ہی مُردوں میں شامل کر دیتا ہے ، وہ جو کسی گھر کی شہزادی ، کسی کی بہن ، کسی کی بیوی ، تو کسی کی ماں یا پھر کسی کی بیٹی ہوتی ہے وہ اس ایک کھیل نہیں نہیں کھلونا بننے کے بعد زندہ لاش بن کر رہ جاتی ہے وہ جینے کے قابل نہیں رہتی وہ جیتی تو ہے لیکن مرنے اور جینے میں پھر کوئی فرق نہیں رہتا۔۔
"مجھے بتائیے کیا خوبصورت ہونا غلط ہے ؟ اگر اللہ نے کسی کو خوبصورتی جیسی انمول نعمت دے ہی دی ہے تو اپنی عمر سے چھوٹی لڑکیوں کی خوبصورتی کو دیکھ کر مرد اُسکا معاشرے میں رہنا عذاب بنا دیتے ہیں ، پھر وہ اپنی عمر نہیں دیکھتے ،کہ تمہاری عمر کیا ہے ؟ تُم اُسکے باپ کے عمر کے ہو بھی کہ نہیں ، آج کل کی نوجوان نسلوں میں سب سے بڑا ہاتھ بگاڑنے کا ہماری اولڈ جنریشن کا ہے ۔۔
"جانتے ہے کیوں ؟ کیونکہ جب بچہ چھوٹا ہوتا ہے تو اسکو کچھ نہیں پتہ ہوتا اور ماں باپ وہ گھر میں ایسی ایسی حرکتیں کرتا ہے اور ماں باپ اُسکی ان حرکتوں پر ہنستے ہیں مسکراتے ہیں اور بات اور اُسکی حرکت کو ہنسی میں ٹال مٹول کر دیتے ہیں ، پھر جب بچہ تھوڑا بڑا ہوتا ہے وہ نہ جائز خواہشیں کرنے لگتا ہے جس کو ماں باپ ہنسی خوشی یہ سمجھ کر پوری کر دیتے ہے جیسے کہ یہ اُنکی اپنے بچے کے لیے بے تحاشہ محبّت ہے ، جبکہ وہ نہیں جانتے کہ اُنکی یہ محبّت اسکو کتنی بڑی برائی کی طرف لے جاتی ہے ، جب بچہ تھوڑا بڑا ہوتا ہے تو اُسکی یہ خواہشیں ضد میں تبدیل ہو جاتی ہے وہ عمر کے اس موڑ پر آ جاتا ہے جہاں سے واپس ہونا کم از کم اُسکے لیے تو بہت ہی مشکل ہوتا ہے پھر وہ اپنی من مانی کرنے لگتا ہے وہ کسی کی نہیں سنتا اور یہ ماں باپ خود اس تہہ پر پہنچاتے ہے بچے کو ، اب کیا فائدہ رونے کا کیونکہ یہ نہ جائز خواہشوں کا بیج بھی تو وہ خود ہی بوتے ہے اب کاٹنا بھی انکو ہی ہے پھر وقت کے ساتھ ساتھ بہت سے تو سدھر جاتے ہیں یا وقت کی مار انکو سدھرنے پر مجبور کر دیتی ہے جبکہ بہت سو میں وقت کے ساتھ ساتھ اور بھی برائیاں اُنکے اندر آ جاتی ہے اور وہ ان برائیوں کی دلدل میں پھنس جاتے ہیں ،کہتے ہے نہ جیسا بیج بونے کے لیے تُم زمین میں دباؤ گے ویسی ہی پھسل پیدا ہوگی اور اب چاہے پھسل اچھی ہو یا بری کاٹنی تو پڑے گی ہی اب انکو تُم کہیں پھینک تو نہیں سکتے ، اس لیے کہتے ہیں کہ وقت رہتے اپنی بچوں کو اچھی تعلیم دو اللّٰہ کا ڈر اُنکی محبّت بچے کے دل میں پیدا کرو تاکہ وہ اچھے کام کریں اللّٰہ کا خوف اُسکے دل میں ہو بُرا کام کرتے وقت اسکو اللّٰہ یاد آ جائے انکا ماضی انکا آج اور انکا مستقبل تینوں ہی محفوظ رہے ۔
وہ روم میں آئی تھی اپنا دوپٹہ اتار کر دور اچھالا اور چلاتی ہوئی وہیں بیٹھتی چلی گئی تھی
"اللہ ہ ہ ہ ہ ہ !!!
بالوں کو اپنی مٹھی میں بے دردی سے جکڑے وہ بے تحاشہ رو رہی تھی ، اللّٰہ تونے مجھے یہ خوبصورتی دی ہی کیوں ؟ م مجھے نہیں چاہئے یہ عذاب بنا دینے والی خوبصورتی ، وہ اللّٰہ سے شقوا کنہ تھی مجھے توں بدصورت ہی بنا دیں میرا یہ حسن چھین لیں کم از کم اس دنیا کے یہ شیطان مجھے دیکھنا تو پسند نہیں کریں میری شکل کو دیکھ کر سو بار منہ تو موڑ لیں گے اب وہ اپنا درد اپنے رب سے بیان کر رہی تھی ۔
تبھی دروازہ نوک ہوا اُس نے اپنے آنسوؤں کو بے دردی سے پونچھا اور اپنا دوپٹہ اٹھا کر کندھوں پر ڈالا اپنا حلیہ درست کرتے ہوئے دروازہ کھول دیا تھا۔۔
"عامر !!
عامر سعد احمد خان ،اُسکا چھوٹا بھائی ، سعد احمد کا سب سے چھوٹا سترہ سالہ بیٹا ، عمر سے پہلے ہی وہ اپنی عمر سے بہت زیادہ بڑا لگتا تھا لمبا قد درمیانی وجود نہ موٹا نہ پتلا سفید گلابی رنگت وہ بلکل جیرش سے مشاہبت رکھتا تھا۔
"عامر تُم یہاں کیسے ؟ جیرش نے نظریں چراتے ہوئے اپنے بھائی سے پوچھا ، کیوں آپی میں یہاں نہیں آ سکتا کیا ؟ سوال کے بدلے سوال کیا گیا ، افكورس آ سکتے ہو تمہارا ہی تو روم ہے جب مرضی آؤ ، جیرش نے فراخ دلی سے اسکو جواب دیا تھا۔۔
" آپی آپ روتی رہی ہیں نہ ؟ عامر نے اپنی جان سے پیاری بڑی بہن کی آنکھوں کو دیکھتے پوچھا اب وہ جیرش کے برابر سے نکلتا ہوا روم میں چلا آیا تھا۔۔
" نہیں تو !!
جیرش نے طویل خاموشی کے بعد گردن نفی میں ہلاتے ہوئے ڈریسنگ ٹیبل کے جانب بڑھی اور پھر اُسکے سوال کا جواب دیا۔۔
"آپی کب سے اپنے بھائی کو آپنے اتنا پرایا کر دیا کہ اب آپ باتوں کو بھی چھپانے لگی ہے ؟ عامر نے اپنی بڑی بہن کو کندھوں سے تھام کر اُسکی اپنی طرف پلٹا ، اور اپنی بہن کا چہرا دیکھتے ہوئے اب وہ گِلہ کر رہا تھا۔۔۔
" ارے میرے شہزادے بھلا میں کیوں چھپاؤں گی کچھ تُم سے ؟
" ہاں !!
" اور تمہیں ایسا کیوں لگا کہ میں روتی رہی ہوں ؟
اُس نے عامر سے نظریں چرائی اور پھر بات کو سنبھالتے ہوئے اسکو اپنے سوالوں میں بہلانے لگی ۔
" بھلے ہی آپ مجھے کچھ مت بتائیے ، لیکن آپکی یہ آنکھیں سب کچھ عیاں کے رہی ہے یہ آنکھیں آپکا ہر درد بیان کر رہی ہے ، ٹھیک آپ نہیں بتانا چاہتی میں آپ پر بتانے کے لیے فورس نہیں کرو گا ، لیکن ایک بات ضرور بولوں گا
" آپی یہ دنیا مظلوم کو ہی ہمیشہ ستاتی ہے ، کبھی اتنا مظلوم نہیں بننا کہ پھر آپکو پچھتانا پڑے اگر اپنے حق کے لیے خود کو انصاف دلانے کے لئے اپنوں کے ہی خلاف جانا پڑے تو کبھی ہچکچہٹ سے کام نہ لینا ، آپ خودمختار ہے اپنے فیصلے خود کر سکتی ہے اپنا اچھا بُرا آپ اچھے سے جانتی ہے جب بھی آپکو ایسا لگے کہ آپکے ساتھ کچھ غلط ہو رہا ہے یا پھر غلط کرنے کے لیے آپ پر دباؤ ڈالا جا رہا ہے دھمکیاں دی جا رہی ہیں تو جو فیصلہ آپکا دل کریں اُس پر عمل کر لینا جو ہوگا اُسکے بعد دیکھا جائے گا ، وہ لڑکا جو جیرش سے دو سال چھوٹا تھا وہ بات کی تہہ کو نہ کھول کر بھی بہت کچھ سمجھا گیا تھا
" ہاں وہ جیرش کا بھائی بھلے ہی اُسکے باپ کا بیٹا نہ ہو لیکن ماں نے ایک نے ہے جنم دیا تھا اسکو بھلے ہی وہ عامر روہیل خان نہیں تھا ، لیکن وہ عامر سعد احمد خان جیسا بلکل بھی نہیں تھا۔۔
" جیرش کا دل کیا وہ عامر کے سینے سے لگ کر بہت روئے اتنا روئے کہ سارے دکھ آنسوؤں کے ذریعے باہر نکل کر بہ جائے اُسکی آنکھوں میں آنسوں آ گئے تھے ، جس کو عامر نے پونچھا تھا اور نفی میں گردن ہلاتے ہوئے رونے سے منا کیا ، یہ رونے کے لئے نہیں ہے یہ تو محبّت دیکھنے کے لئے ہے اپنے بھائی کو اتنا ہینڈسم جو ہے اسکو دیکھنے کے لئے ہے ، چلے اب جلدی سے مسکرائے پھر آپکے لیے ایک نیوز بھی ہے آخر میں عامر نے شرارت سے اپنی بڑی جان سے پیاری بہن کے چہرے پر مسکراہٹ لانے کے لئے کہا تھا۔۔
اور واقعی وہ کامیاب بھی ہوئے گیا تھا کیونکہ جیرش روہیل خان اُسکی آخری بات پر دل کھول کر مسکرائی تھی۔۔
" یہ ہوئی نہ میری بہن !! ماشاللہ بہت پیاری لگ رہی ہے ، اللہ کریں آپکو ساری دنیا کی غلط نظروں سے محفوظ رکھیں آمین ، جیرش نے دل ہی دل میں آمین بولا ، وہ یہ ہی تو چاہتی تھی کہ کوئی اُسکے لیے یہ دعا کریں اور اللہ اُسکی دعا پر کن بول کر دنیا کی غلیظ نظروں سے اسکو محفوظ کر دیں ۔۔۔
" آپکے لئے بریکنگ نیوز یہ ہے کہ اپنے جو ایم بی اے میں ایڈمیشن لینے کے لیے انٹریس ایگزام دیا تھا نہ اُس میں اپنے ٹاپ کیا ہے اور آپکا ایڈمیشن حیدرآباد کی عثمانیہ یونیورسٹی میں ہو گیا ہے
" کیا ا ا ا ؟
"سچّی ؟؟ جیرش کو تو یقین ہی نہیں ہوا تھا اُس نے خوشی سے چہکتے ہوئے عامر سے جو سنا تھا اُسکی تصدیق چاہی تھی۔۔
" مچی !! عامر نے اُسکے ہی انداز میں جواب دیا اپنی بہن کی خوشی کو دیکھ کر وہ بہت خوش تھا بہت ہی زیادہ
" یقین ہی نہیں ہوتا جیرش کی آنکھوں میں ایک دم آنسوں آ گئے تھے ، اں ہاں رونا نہیں ، اب آپ بس یقین کر لیں اور پیکنگ کرنی شروع کر دیں میں نے آپکے لیے وہاں انکل کے فارم ہاؤس کی صفائی کروا دی ہے بسس ایک دو دن میں ، میں اور آپ دونوں حیدرآباد کے لیے روانہ ہو جائے گے اور میں خود آپکو لونگ ڈرائیو یعنی کہ کار سے لمبا سفر طے کر کے جائے گے ایک یاد گار دن گزار کر ، عامر اب اپنے پلان سے اسکو آگاہ کر رہا تھا اچھا آپی میں تھوڑا کام نبطا کر آتا ہوں پھر ہم دونوں آپکے روم میں ہی ڈنر کریں گے انشاءاللہ ، وہ یہ بولتا جیرش سے آنکھیں چراتے اپنی آنکھ کا گوشہ صاف کرتا روم سے چلا گیا تھا
پیچھے جیرش نے ایک لمبی آہ بھری تھی ، وہ اپنا فیصلہ طے کرتے بیڈ کی طرف بڑھ گئی تھی ۔
" کیا جیرش کے لیے حیدرآباد کا یہ سفر اُسکی زندگی بدل دے گا ؟
______________________________________
Firt epi
Tahammul e ishq ki aapke saamne haazir hai ..
Jldi jaye aur read kr ke btaye kaisa hai novel epi
Vote comments share lzmi krna
Bhoolna ni 😅❤️✌️
Ek aur baat plzzz hr ek epi ko read krne ke baad comments mein zaroor btaye ga....
Your author
Maliha Choudhary..
Fareha Sameen
11-May-2022 07:45 PM
Very nice
Reply
Waseem khan
09-May-2022 04:46 PM
Kamal h
Reply
Neelam josi
08-May-2022 05:30 PM
👏👏👌🙏🏻
Reply